اردو دنیا سے باہر سر سید کی شہرت و اعتراف کی وجہ
سر سید نے انگریزوں کی لکھی خلافِ اسلام و پیغمبرِ اسلام کتابوں کے جواب لکھے اِس لیے اُن کی شہرت انگریزی خوانوں اور انگریز ممالک میں پھیلی اور اُنھیں اور اُن کے علمی کاموں کو انگریز دنیا میں ڈسکس کیا گیا۔ انگریز مصنفین کی ایک نہیں متعدد کتابوں اور مضامین کے جواب سر سید کے قلم سے سرزد ہوئے اور پورے چالیس برس تک برابر ہوتے رہے۔ سر سید کے مقابلے میں جن لوگوں کو کھڑا کیا جاتا ہے اُن کی کوئی ایسی علمی کاوش دکھائی جانی چاہیے جو انگریز مصنفین کے رد میں کی گئی ہو۔ یہ وجہ کہ فلاں فلاں مصنف اور مذہبی عالم کو چونکہ انگریزی نہیں آتی تھی اِس لیے وہ انگریز مصنفین کو علمی جواب نہ دے سکا، بالکل ناکافی ہے۔ سر سید کو بھی انگریزی نہیں آتی تھی اِس کے باوجود وہ انگریزی میں علمی جواب تحریر کرتے رہے۔ انگریزی چھوڑیے، بڑے بڑے مذہبی مصنفین کا ایک بھی اردو رسالہ یا کتاب کسی انگریز کو مخاطب کرکے لکھی نہیں ملتی۔ یہ بات نہایت اہم ہے کہ سر سید جس دور میں فلاں فلاں انگریز کی بدفہمیوں اور دریدہ دہنیوں کا علمی جواب لکھ رہے تھے، اُن ایام میں فلاں فلاں مشہور مذہبی مصنفین نے اِن کے خلاف کیوں کچھ نہ لکھا؟ اِس صورت میں کیا یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں ہوگا کہ سر سید جو اپنے تئیں تمام مسلمانوں کی طرف سے فرضِ کفایہ کے طور پر انگریزوں کو علمی جواب دے رہے تھے، اُن کے خلاف طوفانِ بدتمیزی اٹھانے والے اور اُن کے قتل کے لیے کرائے کے قاتل بھیجنے والے لوگ درپردہ انگریز سے ملے ہوئے تھے اور اُسی کے ایجنڈے پر کام کر رہے تھے؟نیز کیا یہ نتیجہ نکالنا بھی درست نہیں ہوگا کہ جو لوگ انگریز سے درپردہ ملے ہوئے نہیں تھے وہ بھی اِس جرات سے محروم تھے کہ انگریز مصنفین کو جواب دے سکیں گو اُن کی غیرتِ دینی جوشاندہ رہتی ہو؟
یہ بھی واضح رہے کہ اردو دنیا سے باہر سر سید کی شہرت و اعتراف کی وجہ صرف فلاں فلاں کی تحریروں کا جواب دینا نہ تھا بلکہ خود اپنے بل پر کیے ہوئے علمی کام بھی تھے۔ اِس دعوے کی سب سے بڑی دلیل اُن کا دو زبانی ترجمہ و تفسیرِ قرآن (تبیین الکلام) ہے۔
نیز یہ بھی اہم ہے کہ سر سید گو صحافت سے بھی وابستہ تھے اور اخبارات میں (آج کے محاورے کے مطابق) کالم نگاری کرتے تھے لیکن اُن کی خال ہی کوئی تحریر وقتیائی گئی ہوگی۔ اُنھوں نے صحافی ہونے کے باوجود کبھی صحافتی لفظیات میں جواب نہیں دیا۔ اُن کی ساٹھ سال پر پھیلی قلمی زندگی میں سے ایک بھی الزامی جواب تلاش کرنا بجائے خود ایک خبر ہوگا۔
یاد رہے کہ سر سید اِس بات پر حیرت کرتے ہیں کہ عیسائی، جو خود وحی والے مذہب کے پیروکار ہیں، وہ کس طرح وحی والے دوسرے مذہب کے پیروکاروں یعنی مسلمانوں کے خلاف ہوجاتے اور اُن کے نبی پر اعتراضات کرتے ہیں جب کہ جنابِ محمد علیہ السلام نے جنابِ عیسیٰ کو اپنا بھائی کہا ہے اور اُن کی نبوت کی تصدیق کی ہے۔ فیا للعجب۔