Pakistan's Premier Multilingual News Platform

بچگانہ یا بچکانہ…

0 126

ابنِ انشا کے استادِ مرحوم کو خدا غرقابِ دریائے رحمت کرے، جب اُنھوں نے انگریزی کے رومن حروفِ تہجی سیکھ لیے اور کچھ لفظ بھی سیدھے کر لیے تو انگریزی کے ساتھ وہ سلوک کرنے کی خواہش پالے پھرتے تھے جو انگریز نے ہمارے ساتھ کیا تھا۔ مرحوم اپنی بغل میں "انگلش ٹیچر” دابے پھرا کرتے اور جہاں کسی کو اُس کی اوقات یاد دلانا مقصود ہوتی، اُس سے کسی ترکاری کا انگریزی نام پوچھ کر کتاب بغل سے نکال اُس کی تصدیق کرا دیا کرتے تھے۔ اردو املا میں کئی لفظ ایسے ہیں جن کے غلط ہجوں کو رواج دینے کے لیے بعض لوگ ایسی ہی حرکتیں کیا کرتے ہیں۔ ایسا ایک مشہور لفظ "بچگانہ” ہے۔ آپ کہیں یہ لفظ بول دیجیے، اطرف سے بعض مصلحینِ زبان امڈ پڑیں گے اور اِسے گ کے بجائے ک سے بولنے اور آخر میں ہ کے بجائے الف لگانے کی تصدیق کے لیے بغل سے کوئی صحیفہ نکال دکھائیں گے۔ اقبال نے ولیکن در بغل دارد کتاب بھی غالبًا اِسی قماش کے مصلحین کو کہنا تھا، افسوس عین وقت پر غریب کارل مارکس سامنے آگیا۔
بچگانہ کو بچکانہ بولنے لکھنے پہ اصرار دیکھا تو اِس لفظ کا کھرا ناپنے کو نکلا۔ جو ڈیٹا مجھے ملا ہے اُس کی زمانی ترتیب کے اعتبار سے درجِ ذیل صورت بنتی ہے:
1: لغات میں "بچگانہ” کی پہلی سند 1787ء میں شائع ہونے والی جان گلکرسٹ کی A Dictionary: English and Hindoostanee ص-95 پر Child کے سرلفظ کے مفاہیم و معانی میں ملتی ہے۔ یہاں اِس لفظ کے ہجے bachganu لکھے ہیں۔ اِس لغت میں بچکانہ/ بچکانا کی نقلِ حرفی موجود نہیں ہے البتہ بِچکانا موجود ہے۔ ظاہراً یہی متبادر ہوتا ہے کہ گلکرسٹ بچکانہ/ بچکانا سے آشنا نہیں تھا، یا اُس کی نظر میں یہ لفظ اِتنا ناگزیر نہ تھا کہ اِسے کسی انگریزی لفظ کے معنی کے لیے استعمال کیا جاتا۔
2: جان رچرڈسن کی 1829ء میں شائع ہونے والی A Dictionary, Persian, Arabic and English, with a Dissertation on the languages, literature and manners of Eastern Nations کے ص-244 پر "بچگانہ” بطور سرلفظ درج ہے جہاں اِسے فارسی لکھا ہے، اور اِس کے معنی لکھے ہیں: Childish, Fit for Children.۔ اِس لغت میں بچہ کی جمع بچگان اور بچگین بھی لکھی ہے، اور ایک خوبصورت ترکیب بچگانِ دیدہ کا معنی آنسو لکھا ہے۔
3: 1884ء میں شائع ہونے والی جان ٹی پلیٹس کی A Dictionary of Urdu, Classical Hindi and English کے ص-136 پر سرلفظ "بچگانہ” کو فارسی لکھا ہے اور معنی بھی وہی ہیں جو رچرڈسن نے دیے ہیں لیکن یہاں ذرا تفصیل کے ساتھ ہیں اور کثیر المفاہیم، لیکن سب مفاہیم اِسی ایک معنی کے ہیں۔ اِسی صفحے پر "بچکانا” کا اندراج بھی ہے جسے ہندی لکھا ہے جس کے کئی مفاہیم کے ساتھ ایک مفہوم Apertaining to, or fit for, children بھی موجود ہے۔ تاہم واضح رہے کہ "بچگانہ” کا بطور سرلفظ اندراج واضح طور پر صرف اِسی ایک معنی کا ہے۔ یوں یہ بھی معلوم ہوگیا کہ پلیٹس کا لغت لفظوں کے اندراج کے معاملے میں سب سے زیادہ روادار ہے۔
4: 1886ء میں شائع ہونے والی ایس ڈبلیو فیلن کی A New Hindustani-English Dictionary میں ص-230 پر "بچکانہ” کا اندراج ہے اور معنی اوپر درج کردہ مفاہیم میں سے صرف دو ہیں۔ جنابِ فیلن مندرجۂ بالا تینوں لغات میں موجود لفظ "بچگانہ” سے ناواقف معلوم ہوتے ہیں کیونکہ اُن کے لغت میں صرف ہندوستانی زبان کے لفظوں کا بطور سرلفظ اندارج نہیں ہے بلکہ فارسی و عربی سرلفظ بھی درج ہیں۔ "بچگانہ” کا سرلفظ شامل نہ کرکے اُنھوں نے تساہل کا یا بے جا تطہیرِ زبان کے مزاج کا ثبوت دیا ہے۔
5: 1888ء میں شائع ہونے والی "فرہنگِ آصفیہ” جلد اوّل ص-377 پر صرف "بچکانا” کا اندراج ہے جسے مولوی سید احمد دہلوی نے اردو کا لفظ لکھا ہے، اور اِس کے مفاہیم میں رچرڈسن اور پلیٹس والے معنی کے علاوہ بھی کچھ مفاہیم موجود ہیں جن کا تعلق طوائفیت، زنخوں اور موسیقی کے فن سے ہے۔ حیرت ہے کہ صاحبِ فرہنگِ آصفیہ بھی "بچگانہ” کے لفظ سے ناواقف معلوم ہوتے ہیں حالانکہ یہ فارسی لفظ اِن سے پہلے کئی لغات، سمیت مندرجۂ بالا اوّل تا سوم، میں موجود تھا۔ نیز اگر یہ سمجھا جائے کہ وہ اِس لفظ کو ہ کے بجائے الف سے لکھنے کی طرف مائل ہیں تو یہ بھی از سر غلط ہے کیونکہ اِسی اندراج کے مفہوم نمبر 3 میں اُنھوں نے بچکانا کا معنی "بچے کا جوتہ” لکھا ہے۔ فرہنگِ آصفیہ میں جوتا کا املا جوتہ اور کُرتا کا املا کُرتہ وغیرہ وغیرہ ثابت کرتے ہیں کہ اردو کے الفاظ کو ہ کے بجائے الف پر ختم کرنے کا "اصول” اُن کے ہاں موجود نہیں ہے اور یہ بعد والوں کا ایجاد کردہ ہے۔ یہاں مولوی سید احمد دہلوی کے اسوے سے یہ اصول معلوم ہوتا ہے کہ لغت نویس کا کام لفظوں کی رائج صورتوں کو درجِ لغت کرنا ہے نہ کہ لغت کو اصلاحِ زبان کی تجویزوں کا مرقع بنانا۔ تاہم یہ بات قابلِ لحاظ ہے کہ مولوی سید احمد دہلوی نے اپنے مربی و استاد فیلن کا درج کردہ لفظ یعنی "بچکانہ” بھی نہیں لکھا بلکہ "بچکانا” لکھا ہے۔ "بچکانا” بطور واحد سرلفظ اردو میں سب سے پہلے غالبًا اِسی لغت میں لکھا گیا ہے۔
6: 1922ء میں شائع ہونے والی "نور اللغات” جلد اوّل ص-542 پر ایک ہی اندراج میں "بچکانا” پہلے بالکسر اور پھر بالفتح درج ہے جنھیں مولوی نور الحسن نیر کاکوروی نے ہندی لفظ لکھا ہے، اور سارے مفاہیم وہی دیے ہیں جو "فرہنگِ آصفیہ” میں ہیں۔ البتہ اُنھوں نے ایک مفہوم "بچے کا جوتا” لکھا ہے یعنی ہ کے بجائے الف کے ساتھ۔ واضح رہے کہ اُس وقت تک کے لغات میں سب سے تفصیلی معنی اِسی لغت میں دیے گئے ہیں۔
7: 1935ء میں شائع ہونے والی "جامع اللغات” جلد اوّل ص-330 پر ایک ہی اندراج "بچکانا” ہے جسے خواجہ عبد المجید نے ہندی کا لفظ لکھا ہے، اور سارے مفاہیم تقریبًا وہی دیے ہیں جو "نور اللغات” میں ہیں اور اِسی کے تتبع میں اُنھوں نے "بچے کا جوتا” لکھا ہے یعنی ہ کے بجائے الف کے ساتھ۔ البتہ "جامع اللغات” واحد لغت ہے جس میں اِس اندراج کے بعد پہلی چیز اِس لفظ کا اشتقاق/ ترکیبی تفصیل ہے۔ لکھا ہے: "بچہ گانہ کا مخرب”۔ یہ تفصیل اِس سے پہلے کسی مستشرق یا ہندوستانی لغت نویس نے درج نہیں کی۔
8: 1972ء میں شائع ہونے والی "علمی اردو لغت” ص-202 پر ایک ہی اندراج "بچکانا” ہے جسے وارث سرہندی نے ہندی کا لفظ لکھا ہے، اور سارے مفاہیم تقریبًا "جامع اللغات” والے؛ البتہ اُنھوں نے "بچے کا جوتہ/ جوتا” لکھا ہے یعنی ہ اور الف دونوں۔ اِس لغت میں بھی رچرڈسن اور پلیٹس والا لفظ و املا بطور سرلفظ موجود نہیں ہے۔ البتہ جوتہ/ جوتا لکھ کر اُنھوں نے اردو/ ہندی الفاظ کو ہ کے بجائے الف پر ختم کرنے کے "اصول” سے خود کو الگ رکھا ہے اور ساتھ ہی نہایت اعلیٰ درجے کا لغت نویس ہونے کی یہ شرط پوری کی ہے کہ لغت نویس کا کام لفظ کی ہر اُس صورت کو لکھ دینا ہے جو چلن میں ہو۔ لفظ گھڑ کر لغت میں درج کرنا لغت نویس کا منصب نہیں ہے۔
9: 1977ء میں شائع ہونے والی "اردو لغت (تاریخی اصول پر)” جلد دوم ص-831 پر ایک اندراج "بچکانا” ہے جس کا متبادل املا "بچکانہ” لکھا ہے جب کہ ص-832 پر "بچگانہ” کا اندراج ہے اور تمام معنی پلیٹس والے دیے گئے ہیں۔ تاہم 1782ء کی حاتمؔ اور 1888ء کی "طلسمِ ہوشربا” والی جو دو اسناد دی گئی ہیں وہ امالے کے ساتھ ہیں یعنی "بچکانے” لکھا ہے، جس سے یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ یہ "بچکانہ” سے امالہ ہے یا "بچکانا” سے۔ البتہ یہ بات خاطر نشان رہے کہ یہ لغت "بچکانا” اور "بچگانہ” کی اشتقاقی معلومات کو دو الگ ترکیبوں/ لفظوں سے ظاہر کرتا ہے: "بچکانا” کی ہیئتِ ترکیبی [بچ (=بچہ) + ا: ک، اتصال + انہ: لاحقۂ صفت] دی گئی ہے جب کہ "بچگانہ” کی [بچگاں (رک بحذف ں) + ف: نہ، لاحقۂ تصغیر]۔
10: 1995ء میں شائع ہونے والی "فرہنگِ تلفظ” ص-146 پر ایک ہی اندراج "بچکانہ” ہے اور اِس کی اشتقاقی معلومات میں بتایا گیا ہے کہ یہ لفظ فارسی "بچگانہ” کی اردوائی ہے۔ چنانچہ معلوم ہوا جنابِ شان الحقی حقی نے اپنے لغت کو واضح طور پر اصلِ اوّل کے امہات اللغات سے مربوط رکھا ہے اور لفظ کی صرف وہی صورت (تت سَم) لکھی ہے جو اوپر درج کردہ لغات میں سے سب سے پہلے یعنی گلکرسٹ و رچرڈسن کے لغات میں اور ازاں بعد پلیٹس میں موجود ہے، اور اپنے لغت میں سرلفظ کے لیے صرف وہ صورت روا کی ہے جو فیلن نے بھی لکھی ہے۔ اِس مختصر اندراج پر توجہ کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ جنابِ حقی نے اِس میں (1) خواجہ عبد المجید کی ذکر کردہ اشتقاقی معلومات کو سمو دیا ہے اور (2) گلرسٹ، رچرڈسن، پلیٹس و فیلن کے اصولہائے تدوینِ لغت سے روشنی لی ہے نہ کہ لغت نویسی کے دبستانِ دہلی یا لکھنؤ کی پیروی کی ہے۔
11: 2009ء میں شائع ہونے والی Punjabi University Punjabi-English Dictionary کے پانچویں ایڈیشن (گرمکھی-انگلش) ص-539 پر اور 2011ء میں شائع ہونے والی Punjabi University English-Punjabi Dictionary کی ساتویں نظرِ ثانی شدہ اشاعت (انگلش-گرمکھی) ص-211 پر "بچگانہ” کا اندراج ہے اور مفاہیم پلیٹس والے ہیں۔
مندرجۂ بالا تفصیلات سے مندرجۂ ذیل نتائج نکلتے ہیں:
1: فارسی کا اصل لفظ "بچگانہ” ہے۔
2: یہی لفظ پنجابی اور اردو لغات لکھنے والے اوّلین مستشرق اور ہندوستانی لغت نگاروں نے بطور سرلفظ لکھا ہے۔
3: "بچکانا” کا بطور واحد سرلفظ اندراج سب سے پہلے "فرہنگِ آصفیہ” میں ہے، یعنی اِس لغت نے سو سال سے لغات میں درج ہوتے آتے لفظ "بچگانہ” کو نکال باہر (ex cathedra) کیا ہے۔
4: بعد کے سبھی اردو لغت نگاروں نے سرلفظ کے معاملے میں "فرہنگِ آصفیہ” کی پیروی کی ہے البتہ "جامع اللغات” میں اِس لفظ کا اشتقاق دے کر بتایا گیا ہے کہ بچکانا دراصل بچہ گانہ کی بگڑی ہوئی صورت ہے۔
5: "فرہنگِ تلفظ” نے اردو لغت نگاروں کی اِس غلطی کی درستی کی اور اِس لفظ کو اِس کی اصل اردو صورت میں بطور سرلفظ لکھا۔
6: چونکہ اردو میں فارسی کے بے شمار لفظ اُن کی اصل صورتِ املا (تت سَم) میں لکھے جاتے ہیں اِس لیے "بچگانہ” ہی درست املا ہے کیونکہ یہی عوام کی زبانوں پر اور تحریروں میں رائج ہے۔
فھوا المطلوب

تشکر: اِس مضمون کے لیے بعض ضروری کتابیں فراہم کرنے میں پروفیسر ڈاکٹر نبیلہ رحمان نے بہت مدد کی۔ اُن کا بہت شکریہ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.