مجھے جب جب بابا کی مار کا سامنا ہوا میں نے دادی کو ڈھال بنانا ہی مناسب سمجھا، دادی مجھے ہمیشہ جھولی میں چھپا لیتیں اور بابا ہاتھ ملتے رہ جاتے۔ یوں مجھے بچپن سے ہی یہ آئیڈیا تھا کہ مرد جتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو ماں کے آگے مجبور اور کمزور ہوتا ہے۔ دادی کے لاڈ پیار نے مجھے کچھ اور بھی بگاڑ دیا سو میں ڈنکے کی چوٹ پر شرارتیں کرتا اور دادی کی جھولی ہمیشہ مجھے ایسے ہی بچا لیتی جیسے عدالتیں آج کل کرپٹ سیاستدانوں کو بچا لیتی ہیں۔ اللہ دادی کو جنت نصیب کرے ان کے جانے کے بعد بابا کچھ مغموم سے رہنے لگے اور میں بھی تھوڑا عرصہ شریف بننے کا ناٹک کرتا رہا۔ کچھ عرصہ گزرا تو پھر سے وہی سسٹم چالو ہوگیا لیکن اب مجھے بابا سے بچانے کے لیے دادی کی جھولی نہیں تھی۔ میں چونکہ ایک انتہائی شرارتی اور نکمی مخلوق تھا سو مجھے چھتروں اور لِتروں سے بچاؤ کے لیے کوئی نہ کوئی حفاظتی خول درکار تھا۔ میں نے اس سلسلے میں اماں سے مدد کی اپیل کی اور دادی کی ذمہ داری اماں نے سنبھال لی۔ بابا ایک بار پھر بے بس ہوگئے۔ ہر شرارت اور نوٹنکی پر اماں، بابا کے سامنے آجاتیں اور میں چُھٹے بدمعاشوں کی طرح دندناتا پھرتا۔ کرتے کراتے تیسری کلاس میں پہنچا تو یہاں ایک تو ریاضی ذرا مشکل ہوگئی دوسرا پہلی بار انگریزی زبان کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے سکول ہی سے نفرت ہوگئی۔ اس نفرت کا حل میں نے یہ نکالا کہ صبح بابا مجھے سکول چھوڑتے، میں اندر جاتا اور دس منٹ بعد دوسرے دروازے سے نکل کر سکول کو خدا حافظ کہہ کر بازار میں موجود ہوتا۔ لیکن باپ تو باپ ہوتا ہے چند دنوں میں ہی بابا جان کو شک ہوگیا کہ کوئی گڑبڑ ضرور چل رہی ہے۔ ایک مہینہ تو اسی طرح گزر گیا، بابا بھی موقعہ کی تلاش میں تھے اور میں بھی پوری ایمانداری اور احتیاط سے بے ایمانی کر رہا تھا۔ ایک دن اسی روٹین کے تحت میں حسب معمول سکول کو منہ دکھا کر دوسرے دروازے سے باہر نکلا ،بستہ پیٹ میں ٹھونسا اور مکمل ہیرو ٹائپ چال کے ساتھ بازار جا پہنچا۔ ابھی آوارہ گردی سٹارٹ ہی کی تھی کہ سامنے نظر پڑی، وہاں بابا حضور خونخوار نظریں لیے کھڑے تھے۔ پہلے تو مجھے لگا میں کوئی بھیانک خواب دیکھ رہا ہوں لیکن جب دوبار آنکھیں جھپکنے کے بعد بھی بابا ویسے ہی سامنے کھڑے نظر آئے تو مجھے کنفرم ہوگیا کہ یہ میرے بابا ہی ہیں۔ میرے دل سے آوازیں آنے لگیں کہ بچُو آج تمہارا کھیل کھلاس ہوا۔ مجھے بابا کی نگاہوں میں غصے کے ساتھ ساتھ ہلکی ہلکی خوشی بھی دکھائی دی۔ شاید اس لیے کہ آج انہیں مکمل اور فول پروف موقعہ میسر آچکا تھا۔ اس یکدم حادثے میں ایک دفعہ تو میرے دل میں خیال آیا کہ سرے سے مُکر ہی جاؤں کہ میں آپ کا بیٹا ہوں، یا پھر یہ کہہ دوں کہ دنیا میں ہر انسان کی شکل کے سات افراد ہوتے ہیں اور میں اُن ہی میں سے کوئی ایک ہوں۔ لیکن پھر اس ناممکن خیال کو جھٹک کر لاپرواہ بننے کی کوشش کی۔ لیکن میری لاپرواہی شاید کسی کام نہ آئی کیونکہ بابا جان بازو چڑھا کر پوری طاقت سے میری جانب بڑھ چکے تھے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ جس دن آپ پر موت آتی ہے تو پوری کائنات ساتھ مل کر آپ کو مارنے پہ تُل جاتی ہے سو مجھے اندازہ ہوگیا کہ اگر یہاں سے بھاگنے کی کوشش کی تو یہ سارے لفنگے دوکاندار مجھے پکڑ کر بابا کے حوالے کردیں گے۔ اُس وقت جو جو وظیفے مجھے دادی نے یاد کروائے تھے، سارے ایک بار تو میں پڑھ کر خود پہ پھونک چکا تھا۔ میں تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا بازار سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن بابا کی پُھرتی دیکھ کر مجھے جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ تیز قدموں سے جان نہیں بچنے والی۔ سو میں نے اماں کو یاد کیا اور دوڑ لگا دی۔ مجھے یہ تو پتا نہیں کہ بابا نے بھی پیچھے دوڑ لگائی یا نہیں لیکن یہ اندازہ ضرور ہوگیا کہ اگر جلدسے جلد اماں کی جھولی تک نہ پہنچا تو آج میری خیر نہیں۔ پہلا سانس ہی گھر پہنچ کر لیا اور سیدھا اماں کی جھولی میں جا چھپا۔ اماں کو بھی آئیڈیا ہوگیا کہ بچہ آج پھر کچھ نہ کچھ کرکے ہی آیا ہے سو انہوں نے مجھے پیار سے پچکارا اور سینے سے لگا لیا۔ مجھے بھی سکون سا ملا اور سانس میں سانس میں آئی۔ اتنی دیر میں بابا جان بھی پہنچ چکے تھے۔ میں نے اماں کی سائیڈ سے ان پر ایک مسکراتی نگاہ ڈالی۔ بابا کا غصہ دیکھ کر اماں نے مجھے تھوڑا اور قریب کرلیا اور انہیں سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔۔۔
’’تمہارا بیٹا سکول نہیں گیا‘‘
بابا کی گرج دار آواز آئی
اماں نے مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھا لیکن تھوڑا اور قریب کرتے ہوئے بولیں
’’تو کیا ہوا اتنی سی بات پہ بچے کی جان نکالنے پہ تُلے ہوئے ہیں‘‘
’’بازار میں گھوم رہا تھا خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آرہا ہوں‘‘
بابا پھر گرجے، لیکن اب مجھے پرواہ نہیں تھی کیونکہ اماں نے مجھے اپنے پیچھے تقریباً چھپا لیا تھا۔
’’اور میں نے سکول سے پتا کیا ہے یہ تو پچھلے ایک مہینے سے سکول گیا ہی نہیں‘‘
بابا نے اماں کو مکمل قائل کرنے کی آخری کوشش کی اور شاید یہ کوشش کامیاب بھی ہوگئی تھی کیونکہ بابا کے یہ آخری الفاظ تھے جو اس وقت میری سماعتوں سے ٹکرائے۔ پتا نہیں آگے پھر ایسا کیا ہوا کہ میری گناہگار آنکھوں نے خود دیکھا، اماں نے مجھے بازو سے پکڑا اور بابا کے سامنے پٹخ دیا۔
’’پڑھائی کے معاملے میں نو کمپرومائز‘‘
یہ الفاظ شاید میں نے اماں کے منہ سے سنے تھے۔
اس کے بعد پہلی بات تو مجھے کچھ یاد ہی نہیں کہ کیا ہوا تھا دوسری بات اگر یاد بھی ہوتا تو میں نے نہیں بتانا تھا۔
Sign in
Sign in
Recover your password.
A password will be e-mailed to you.

عامر راہداری ایک فری لانس لکھاری اور جرنلسٹ ہیں ۔ مختلف چینلز میں کام کرچکے ہیں اور آج کل پی این این نیوز کے ساتھ کانٹینٹ پرڈیوسر کے طور پر کام کر رہے ہیں ۔ ان کا ٹوئٹر ہینڈل @aamirrahdariہے اور سوشل میڈیا پر مختلف ایشوز پر لکھتے ہیں۔